JADOON ADEEB KI KAHANI
جدون ادیب میں جماعت چہارم میں اردو کا پیریڈ لے رہا تھا۔اس اسکول میں آئے ہوئے مجھے ایک ہی ہفتہ ہوا تھا۔رواں لکھائی والے قلم مجھے بہت پسند تھے۔میں بڑی تعداد میں ایسے قلم اپنے پاس رکھتا تھا،مگر پھر بھی کسی کے پاس اچھا قلم دیکھتا تو اسے حاصل کرنے کو دل چاہتا تھا۔اس دن بھی یہی ہوا کہ ایک طالبہ شبنم کے قلم کی تعریف کر دی اور اس بچی نے ایک لمحہ تاخیر کیے بغیر وہ قلم مجھے تحفتاً پیش کر دیا۔ رسماً میں نے انکار کیا،لیکن پھر قبول کر لیا۔پھر بھی مجھے احساس ہوا کہ میں نے جلدی کی ہے اور خود غرضی کا مظاہرہ بھی اور اس کے بعد مجھے شرمندگی محسوس ہوئی اور میں نے شبنم سے کہا کہ وہ اپنا قلم واپس لے لے،مگر اس نے قلم واپس لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ دیا ہوا تحفہ واپس نہیں لیتے!میں نے کچھ پیسے دینے کی کوشش کی تو وہ خفا ہونے لگی۔
اس کے بعد بھی میں نے شبنم کو اس کے قلم کے بدلے دوسرے قلم دینے کی کوشش کی،مگر وہ نہ مانی۔ کچھ دنوں بعد میں نے وہ اسکول چھوڑ دیا،مگر قلم میرے پاس رہا اور سچ پوچھیے تو وہ بہت پیارا قلم تھا۔زیادہ قیمتی نہیں تھا،مگر روانی کی وجہ سے میرے لئے بہت اہمیت اختیار کر گیا اور کئی سال تک میں نے اس سے بچوں کی کاپیوں کی جانچ پڑتال کی تھی۔دو ماہ بعد بھی قلم اُٹھایا تو وہ ایک دم سے لکھنے لگا۔سیاہی کے آخری قطرے تک وہ رواں اور ایک جیسا لکھتا تھا۔ وہ قلم میرے پاس دس سال رہا۔بار بار اسے میں نے ٹھیک کروایا۔اس دوران میں اس جیسا قلم پانے کے لئے میں نے لاتعداد قلم خریدے،مگر اس قلم کے معیار کو کوئی نہ پہنچ سکا۔آخر ایک دن وہ پین مجھ سے گم ہو گیا۔ دراصل قلم کا ڈھکن خراب ہو گیا تھا اور جیب میں کہیں سیاہی نہ گر جائے اس لئے وہ قلم میں نے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا اور رکشے میں سامان کے ساتھ تھا۔ گھر پہنچ کر سامان تو اُٹھا لیا،مگر وہ قلم وہیں رہ گیا۔مجھے اس قلم کے کھونے کا اتنا صدمہ ہوا کہ میں ہر کسی سے اس کا ذکر کرنے لگا۔کئی رکشے والوں سے بھی پوچھا،مگر وہ قلم نہ ملا۔میں نے ایک ایک کر کے کئی قلم بدلے،مگر اس قلم جیسی بات پیدا نہ ہو سکی۔ پھر ایک دن مجھے اس اسکول میں ایک تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے بلایا گیا۔میں وہاں پر بھی اپنے قلم کا ذکر کرنے سے خود کو باز نہ رکھ سکا۔ تقریب کے بعد ایک ٹیچر نے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کیا۔اس نے بتایا کہ وہ میری شاگرد ہے اور اسی اسکول میں پڑھاتی ہے۔ہماری ملاقات ہوئی،جس میں تعلیمی مسائل پر بات ہوئی،میں اس کا نام نہ جان سکا۔جاتے جاتے اس نے مجھے ایک تحفہ پیش کیا۔گھر پہنچ کر میں نے ڈبا کھولا تو اس میں کاغذ میں لپٹا ایک قلم اور ایک خط تھا۔پہلے میں نے خط پڑھنا شروع کیا،لکھا تھا: استاد محترم! آپ نے مجھے پڑھایا اور اچھی اچھی باتیں بتا کر میری زندگی سنوار دی۔ آپ سے متاثر ہو کر میں ٹیچر بنی اور آپ کے انداز سے پڑھانے کی کوشش کرتی ہوں۔آج آپ کی پریشانی دیکھی تو مجھ سے رہا نہ گیا۔میرے والد رکشا چلاتے ہیں۔ان کو ایک قلم ملا تھا جو انھوں نے مجھے دے دیا اور اب وہی قلم آپ کو لوٹا رہی ہوں۔آپ کی بیٹی،شبنم۔ میں نے بے تابی سے کاغذ کھولا تو اندر وہی قلم موجود تھا۔اس خود دار لڑکی نے میرا شکریہ تک سننے کی زحمت گوارہ نہ کی کہ کہیں میں شرمندہ نہ ہو جاؤں اور وہ پھر مجھ پر احسان کر کے چلی گئی۔افسوس یہ تھا کہ میں اسے پہچان نہ سکا۔میں نے قلم کو چوم لیا اور میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
0 Comments